Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۲۹(کتاب الشتّٰی )
1 - 157
کتاب الشّتی (حصّہ چہارم)

عروض وقوافی
مسئلہ۱ : از سہارن پور ضلع ایٹہ مرسلہ جناب چودھری مولوی عبدالحمیدصاحب ۲۰ جمادی الاولٰی ۱۳۳۱ھ

اعلٰیحضرت عظیم البرکت مجددمائۃ حاضرہ مؤید ظاہرہ عالی جناب مولوی مفتی احمد رضا خان صاحب ۔ادام اﷲ تعالٰی ظلال اشادہ علٰی راس الطالبین، پس از آداب عجز و نیاز و سلام مسنون، مارہرہ سے ایک صاحب نے کنز الآخرہ پر مندرجہ پرچہ بااضافہ و ترمیم کرکے بھیجا ہے جس کے جوابات ذیل بغرض ملاحظہ اعلٰیحضرت ارسال ہیں، بعد ملاحظہ اس امر کی تنقیح فرمائی جائے کہ اعتراض کس حد تک صحیح ہیں اور جوابات کس حد تک کافی، تاکہ اس کے مطابق عملدرآمد کیا جائے۔ معترض صاحبِ فن شاعری میں دستگاہ قادر رکھتے ہیں اور عروض و قوافی میں مہارتِ کامل۔

(۱) صفحہ ٹائیٹل محمد الرسول اﷲ۔
اعتراض : مضاف پر الف لام نہیں آتا۔

جواب : میں نے عنوان  کتاب پر سوا نام کتاب کے کچھ تحریر نہ کیا۔ باقی سب عبارت تالیفِ کا تب ہے۔
لاتزروازرۃ وزراخری ۔۱؂
( اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔ت)
(القرآن الکریم ۶/ ۱۶۴)
(۲) ص ۴: وہ یگانہ ہے صفات وذات میں 	نیز یکتا اس کے سب افعال ہیں
(۲) ص ۴: وہ یگانہ ہے صفات وذات میں 	نیز یکتا اس کے سب افعال ہیں

اعتراض : قافیہ صحیح نہیں ، یوں ہو:ع

نیز یکتا ہو وہ ہر بات میں
جواب : اختلاف حرکت قافیہ میں اساتذہ کی سندیں حدِ تواتر پر ہیں حضرت سعدی :
(۱)  چو خواہد کہ ویراں کند عالمے	کند ملک درپنجہ ظالمے

(۲) برائے جہاندیدگاں کارکن		کہ صیدآموزد است گرگ  کہن

(۳) چوخدمت گزاریت گردد کہن	حق سالیانش فرامش مکن

(۴)کنونت کہ دستت خاری بکن	دگر کے برآری تو دست از کفن

(۵) بخائیدش از کینہ دنداں بزہر	کہ دوں پرورست ایں فرومایہ دہر
(۱) جب وہ چاہتا ہے کہ کوئی ملک برباد ہوجائے تو وہ ملک کسی ظالم کے قبضہ میں دے دیتا ہے۔

(۲) جنہوں نے جہاں دیکھا ہوا ہے ان کی رائے کے مطابق عمل کر کیونکہ پرانے بھیڑیئے کو شکار کا تجربہ ہوتا ہے۔

(۳) جب تیرا خدمتگار بوڑھا ہوجائے تو اس کے سالانہ وظیفے کومت بھول۔

(۴) اب جب کہ تیر اہاتھ (طاقت ) ہے کوئی کانٹا نکال، پھر کفن سے کب ہاتھ باہر نکال سکے گا۔

(۵)کینہ کی وجہ سے اس کو زہریلے دانتوں سے چبائیں گے کیونکہ کینہ پرور ہے یہ کمینہ زمانہ۔(ت)
(۱؂     بوستان سعدی         باب اول         مکتبہ شرکتِ علمیہ ملتان        ص ۴۱ٌ)

(۲ ؎    بوستان سعدی         باب اول         مکتبہ شرکتِ علمیہ ملتان        ص ۶۳)

(۳؂     بوستان سعدی         باب اول         مکتبہ شرکتِ علمیہ ملتان        ص ۱۹)

(۴؂     بوستان سعدی         باب اول         مکتبہ شرکتِ علمیہ ملتان        ص ۵۰)

(۵؂     بوستان سعدی         باب اول         مکتبہ شرکتِ علمیہ ملتان        ص ۹۳)
مثنوی شریف :   گفت پیغمبر بکُن اے رائے زن   مشورت کالمستشارِ مؤتِمنُ ۱؎

مؤتمن بکسر میم ثانی بمعنی امین ہے۔

کالے خدا افغاں ازیں گر گ کہن	گویدش نک وقت آمد صبر کن ۲؂
 (۱؂     مثنوی معنوی         دفتر اول         مؤسسۃ انتشارات اسلامی لاہور             ۱/ ۱۳۱)

(۲ ؎   مثنوی معنوی         دفتر سوم         مؤسسۃ انتشارات اسلامی لاہور             ۳/ ۵۰)
کمال اسمعیل :

اے زرایت ملک ودیں درنازش ودرپرورش		اے شہنشاہ فریدوں فرداسکندرمنش

سایہ حق است و یارب سایہ اش پایندہ دار 	زانکہ فرض ست ازمیان بادعائے دولتش
منش اور دولتش کا اختلاف اظہر من الشمس ہے ، مولوی حافظ عزیز الدین جلیسری مؤلف نادرالترتیب جو اب بھی حیات ہیں اور بڑے استاد اور پرانے تجربہ کار شاعر ہیں نادرالترتیب میں لکھتے ہیں۔

چھ سو بارہ تیرہ فصل دوباب اس میں ہیں	تھوڑے تھوڑے حاشیہ پر ہیں لغت ہر باب میں

مہربان من اختلاف دکن قافیہ بے تکلف درست ہے۔

(۳) ص ۴:

ہے وہی خلّاق مخلوقات کا	ہے وہی رزّاق حیوانات کا
اعتراض : مخلوقات و حیوانات میں ایکار ہے، یوں چاہیے،  ہے وہی رزاق مرزوقات کا

جواب: جمع کے قوافی ،میں مفرد کا لحاظ نہ رکھا جائے گا ، مستحسن ضرور ہے لازم نہیں۔
مولانا روم : یاکریم العفو، ستّار العیوب !	انتقام ازمامکش اندر ذنوب ۳؎

پس پیغمبر گفت استفت القلوب 	گرچہ مفتی تاں بروں گوید خطوب ۴؂
عیوب وذنوب میں علامت جمع واؤ ہے اس کو علیحدہ کرکے دیکھا جائے تو عیب و ذنب کا قافیہ نہ بنے گا اسی طرح قلوب و خطوب۔
 (۳؂     مثنوی معنوی         دفتر اول         مؤسسۃ انتشارات اسلامی لاہور             ۱/ ۱۴۵)

(۴؂     مثنوی معنوی         دفتر ششم        حامد اینڈ کمپنی لاہور                ۶/ ۵۰)
آتش گلزار نسیم ؂

حلوا اس دیو کو دکھلاؤ 	گڑ سے جو مرے تو زہر کیوں دو

یہاں بھی علامت جمع واؤ کے علیحدہ کرنے سے قافیہ مفرد کا صحیح نہیں رہتا ، ایک استاد جن کا نام مجھ کو یاد نہیں فرماتے ہیں۔

تم درود اس نام پر پڑھتے رہو اے مومنین !	چھوڑ دو سب ذکر جب ہو ذکر ختم المرسلین

(۴) صفحہ ۵:

وہ کسی کا بھی نہیں محتا ج ہے	اس کے سب محتاج ہیں چھوٹے بڑے

اعتراض : قافیہ غلط، یوں چاہیے اس کی ہی محتاج ہے ہر ایک شے 

جواب: نمبر۲ میں گزر چکا۔

(۵) صفحہ ۵:

پاک ہے وہ جسم و جوہر عرض سے	مادہ سے اور مکاں سے مرض سے
اعتراض : جوہر کے مقابل عرض بفتحتین ہے اور نیز مرض، یوں چاہیے۔:

ہے عرض اور جسم و جوہر سے وہ پاک 	مادہ سے اور مرض اور گھر سے پاک

جواب : یہ بضرورت جائز ہے اس کا نام تفریس ہے، اگرچہ یہ تفریس قبیح ہے، لیکن جائز ہونے میں شک نہیں، اکثر اہلِ فارس نے لغات عربی میں بموجب شہرت عام کی ہے، مثلاً حرکت بفتحاتِ ثلثہ مّلا فوقی :ع
زبس خوش حرکت وشیریں ادا بود

کفن بفتحتین، لیکن شفائی کہتا ہے۔

از لتہ حیض خواہرش کفن کند
پس ایک زبان کے لغت کو دوسری میں تفریس کرکے لانا صحیح، ہاں عربی کو عربی، فارسی کو فارسی میں تفریس کرے تو ضرور ناجائز، باایں ہمہ اس تفریس کو میں بھی پسند نہیں کرتا اور اب میں نے ان تمام متغیر الحرکات لغات کو اصلی حرکات سے ملبس کرکے درست کرلیا ہے۔شعر کو جناب نے ترمیم فرما کر جو تحریر فرمایا ہے اس میں پاک ہر دو جگہ متحدالمعنٰی ہے پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ قافیہ کیونکر درست ہوگا۔ ہاں اس طرح تر میم کیا جائے۔
وہ عرض اور جسم و جوہر سے ہے پاک	مادہ سے اور مرض گھر سے ہے پاک

یا یوں ؎

ہے عرض اور جسم جوہر سے پاک 	مادہ سے اور مرض اور گھر سے پاک

تب درست ہے لیکن اس میں یہ قباحت ہے کہ ضمیر( وہ ) کسی جگہ نہیں آتا، میں نے ترمیم اس طرح کی ہے۔

وہ مکاں سے اور مرض سے پاک ہے	جسم و جوہر سے عرض سے پاک ہے

اس میں اگرچہ کلمہ مادہ کا دور ہوا جاتا ہے لیکن بندش میں شگفتگی ہوتی ہے اور مادہ کی توضیح یوں بھی ہوسکتی ہے کہ جب مرض سے پاک ہے لامحالہ مادہ سے بھی پاک ہے کہ مادی شے کو مرض لازمی ہے۔

(۶) صفحہ ۵:

حاضر و ناظر وہی ہے ہر جگہ 	کچھ نہیں پوشیدہ اس سے بے شبہ

اعتراض : شبہ غلط ہے صحیح :

حاضر وناظر وہ ہے ہر ایک جا	اس سے پوشیدہ نہیں کوئی ذرا

جواب : چونکہ اس تفریس کو میں خود مقبوح کہہ چکا ہوں لہذ ااس سے مجھ کو اتفاق ہے۔
 (۷) صفحہ ۶: 

وہ مجیب عرض اور دعوات ہے	بیشبہ وہ قاضی الحاجات ہے

اعتراض : قافیہ ، ترمیم: شرک و کفر و فسق سے نفرت اسے

جواب : ترمیم تسلیم۔

(۸) صفحہ ۷:

ہے وہ راضی طاعت و ایماں سے	شرک و کفرو فسق سے ناخوش وہ ہے

اعتراض : ترمیم : بالیقین وہ قاضی الحاجات ہے۔

جواب نمبر ۲: مفصل گزرا، اس کو غلط سمجھنا معترض کی غلطی ہے۔
 (۹) صفحہ ۸:

حق ہے معراج محمد دیں پناہ		آسمانوں پر الٰی ماشاء اللہ

اعتراض : بغیر اضافت محمد دیں پناہ کی ترکیب اجنب ہے۔

جواب : جناب بغیر اضافت کیوں رکھتے ہیں، اگر محمد کی دال کو خفیف اضافت دی جائے تو کیا حرج ہے، شعر وزن سے نہیں گرے گا۔

حق ہے معراج محمد دیں پناہ 		فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

(۱۰) الٰی ماشاء اللہ غلط ہے،ترمیم ؎

حق ہے معراجِ محمد بالیقین		آسمانوں پر گئے سلطانِ دیں
وقس ھذاالبواقی۔
جواب : ماشاء کے ہمزہ کو آپ ظاہر کرکے کیوں پڑھتے ہیں، ہمزہ کو ماشاء اﷲ کے الف اور اﷲ کے لام میں ادغام کرکے پڑھئے۔ جناب نے ترمیمی شعر کہا ہے اس شعر اور اس کی خوبی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

 آسمانوں پر گئے سلطان دیں اس میں انتہائے سیر معراج آسمانوں تک ثابت ہوتی ہے، اور شعر کتاب میں الٰی ماشاء اﷲ کا کلمہ ایسا پر معنی ہے جس میں انتہائے سیر کی کچھ حد ہی نہیں رہتی اور جس کی تفسیر
فکان قاب قوسین اوادنٰی سے مزین ہے کما لا یخفٰی علی اھل البصیرۃ
 ( جیسا کہ اہلِ بصیرت پر پوشیدہ نہیں۔ت) تمت۔
Flag Counter